میر مرتضی بھٹو کی شھادت اور پس پرده حقائق

پیپلزپارٹی کے دشمنوں نے میرتضی بھٹو کیشھادت کے حقائق کو مسخ کرکے پیپلزپارٹی .اور بھٹو خاندان کو توڑنے کی بدترین شازس کی fb_img_1474380766726

لیکن وقت اور تاریخ سب سے بڑے منصف هیں سچ آخر سب کے سامنے آ هی جاتا یے ‘ آج پاکستان کی تاریخ اور سیاست پر غیر جانبدار نظر رکھنے والا هر شخص جانتا هے که وه کون تھے جنھوں مجبور بے نظیر کو بے کس مرتضی سے دور کرنے جی کوشش کی مگر انکی کوشش کامیاب نه هوسکی ‘ دونوں ” ویر اور همشیر” دشمن کے ارادوں کو بھانپ گئے تھے اس لیئے جلد سے جلد دونوں کی ملاقات هوتی هے’ سب گلے شکوے دور هوتے هیں ‘ عوام اور ورکرز کے ساتھ مل کر دشمن جی سازشوں کا منه توڑ جواب دینے کا عھد هوتا هے

اس اهم ترین ڈویلپمنٹ سے دشمن کی نیدیں حرام هوتی هیں ‘ ایوان صدر میں بیٹھا بے نظیر بھٹو شھید کا منه بولا بھائی حقیقی بھائی کے قتل کی سازش میں مصروف هوتا ادھر ملک کے طاقتور ادارے حکومت کو مفلوج کرکے اتنظامات هاتھ میں لیئے بیٹھے هوتے هیں اور وار کرنے کے انتظار میں هوتے هیں آخرکار پیپلزپارٹی سے خوف کا شکار بزدل لوگوں نے 20 ستمبر کو میر مرتضی بھٹو کو 70کلفٹن گھر کے سامنے بے دردی سے شھید کردیتے هیں اور پروپیگنڈه کے ذریعے یه تائثر دیتے هیں که حکومت اسکی همشیره کی هے اس لیئے اس بے بھائی کا خون کرایا هے “حلانکه محترمه بے نظیر بھٹو اپنے سب سے پیارے بھائی مرتضی کی شھادت نے اندر سے توڑ کے رکھ دیا تھا” مضبوط اعصاب والی بے نظیر بے نظیر باپ اور چھوٹے بھائی کی لاشیں اٹھا سکتی تھی مگر لاڈلے مرتضی کی لاش بے نظیر بھٹو شھید کی زندگی کا سب سے دردناک لمحه تھا اور اس سے بڑا ظلم کیا هو گا کیا که بھائی شھادت کا ذمه ان پر انکے شوهر آصف زرداری پر لگا اور چند دن بی بی شھید کی حکومت بھی ختم کردی گئی’

سالھا سال اسی پروپیگنڈه کو دشمن نے سیاسی طور پر کیش کیا بھٹو خاندان اور ورکرز کو تقسیم کرنے کی سازشیں هوئیں  مگر ناکام هوئیں. جتنا بھی جھوٹ بولا جائے لیکن سچ ایک دن سامنے آ هی جاتا هے

پچھلے سال حامد میر نے میر مرتضی بھٹو کی شھادت اور پیپلزپارٹی کی حکومت الٹنے کی حقیقت کو بے نقاب کردیا انھوں واضح طور پر بتایا کی اس سازش میں اسٹیبلشمبٹ’ شریف برادران’ چوهدری نثار اینڈ کمپنی شامل تھی جنھوں صحافیوں کو اک گروپ بشمول حامد میر کو بلا کر پیپلزپارٹی کی حکومت گرنے کی پیشگی اطلاع دی

قصه مختصر میر تضی بھٹو کے قتل کے حقائق سب کے سامنے هیں ذمه دار وهی هیں جنھوں نے بھٹو کو پھانسی چڑھایا’ شاهنواز جا قتل کیا’ ایک ماں کو جیتے جی مار دیا اور آخر بے نظیر بھٹو کو بھی شھید کردیا

بغض زرداری لا علاج بیماری

پنجاب کے حکمران دنیا کے دوسرے نمبر کے کرپٹ ترین حکمران ثابت هوچکے هیں مگر همارا معاشره ‘ ادراے ‘ میڈیا ابھی بھی پیپلزپارٹی اور اسکی لیڈرشپ کو غلط ثابت کرنے پر تلے هوئے هیں ‘ نئی پیشرفت کی بجائے 30’30 سال گھسے پٹے اور من گھڑت قصے عوام کو بتائے جاتے هیں

fb_img_1474793484986

ملاں، ملٹری ،عدلیہ ،میڈیا، غیرت مند صحافی اورقوم کی مجاہد نوجوان نسل اور پنجاب کی باشعور عوام اس وقت شدید صدمے کی حالت میں ہے کیونکہ آصف زرداری کا نام پانامہ لیکس میں نہیں ہے اور وہ کچھ نہیں کر پارہے انکے جذبات اندر ہی اندر قتل ہوئے جا رہے ہیں ، اگر صرف زرداری کا نام آجاتا تو پوری قوم کی مشکل آسان ہوجاتی اور پھر دیکھتے کیا حشر ہوتا ، روز سوموٹو ہوتے عدالت میں بلاکر ذلیل کیا جاتا، میراتھن ٹرانمیشن میں اینکرز بھٹو سمیت پوری پیپلزپارٹی کو گالی بناتے ، زرداری کو گھسیٹنے اور لٹکانے کی تیاریاں ہوچکی ہوتیں ، لانگ مارچ ،غداری کے فتوے سب کچھ بہترین چل رہا ہوتا’ قوم کے نوجوان سوشل میڈیا پر بھٹو خاندان اور زرداری کے حامیوں کو خوب لتاڑ رہے ہوتے۔انڑپول والوں کو بار بار کہا جا رہا ہوتا کہ “نکمو جلدی پکڑو اسکو”

لہور کے چوکوں پر “زرداری کتا ہائے ہائے ” کے نعرے واشگاف الفاظ میں بلند ہوتے
مگر ایسا بالکل نہیں ہو رہا ، پانامہ والوں نے زرداری کا نام نہ ڈال کر پوری قوم کے ارمانوں پر پانی9 پھیرا ہے ، حالانکہ کچھ زرداری مخالف دوست اور میدیا کے لوگ اب بھی کوشش کررہے ہیں کہ پانامہ میں زرداری کا نام نہ ہونے کے باوجود بھی کس طرح اسکو زرداری کے ساتھ جوڑا جائے، اس لیئے شریف بردارن پر فوکس کرنے کی بجائے میڈیا اور زرداری مخالف یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ “آصف زرداری نواز شریف کو بچا رہا ہے پانامہ والوں سے”
تمہارا بیڑا غرق ہو پانامہ والو! کم از پورے پوری ڈیڑھ کروڑ دستاویزات میں ایک کونے میں بے شک ہاتھ سے ہی لکھ دیتے زرداری کا نام تو اس قوم کی بہت بڑی مشکل آسان ہوجاتی

هر دور میں پیپلزپارٹی هی زیر عتاب کیوں

شھزاد شفیع اے ایمان والو! ایک بات ذہن نشین کر لو اب اس بات پر مہر ثابت ہوچکی ہے اس ملک میں موجود ہر ادارے کا مقصد صرف اور صرف پیپلزپارٹی اور اس جڑے ہر شخص کو ٹارگٹ کرنا ہے چاہے وہ پیپلپزپارٹ…

Source: هر دور میں پیپلزپارٹی هی زیر عتاب کیوں

هر دور میں پیپلزپارٹی هی زیر عتاب کیوں

 

شھزاد شفیع

اے ایمان والو!
ایک بات ذہن نشین کر لو اب اس بات پر مہر ثابت ہوچکی ہے اس ملک میں موجود ہر ادارے کا مقصد صرف اور صرف پیپلزپارٹی اور اس جڑے ہر شخص کو ٹارگٹ کرنا ہے چاہے وہ پیپلپزپارٹی کا بانی ذوالفقار علی بھٹو ہو اسکی اولاد ہو یا کوئی اسکا جیالا سب پر ایک ہی اصول لاگو ہوتا ہے’ ایسا لگتا ہے ملاں ہو یا پھر عدلیہ ، فوج ہو یا پھر احتساب کے ادراے ‘ بیوروکریسی ہو یا پھر پولیس ‘ خودکش دھماکے ہوں یا پھر فتوے ان سب کی ایجاد کا مقصد پیپلزپارٹی کا کسی طرح سے “صفایا” کرنا ہے اور ان سب میں ہر ایک ایمانداری سے فریضہ سر انجام دے رہے ہیں اس لیئے بھٹو لیکر اسکی اولاد تک اور ورکرز سے لیکر اسکے ہمدردوں تک کسی کو نہیں بخشا گیا بھلے وہ بوڑھا تھا، نوجوان تھا ، خاتون تھی یا کمزور نہ تو ان کے کے لیئے گولی بندوق رکتی ہے ، نہ ہی عدلیہ رحم کرتی ہے ، نہ ہی کوئی فتویٰ رکتا ہے اور نہ کوئی خودکش بمبار ‘ اس لیئے وہ بھٹو ہو یا بے نظیر’ شاہنواز ہو یا مرتضیٰ یا پھر رزاق جھرنا ہو’ یا سلمان تاثیر کس کو رعایت نہیں ۔
یہ تو اتنے بہادر ہیں ایک نہتی ماں “بیگم بھٹو” کا سر بھی پھاڑ دیتے ہیں بھرے مجمے میں ‘ ایسا تو شاید یذید بھی نہ کر سکا ہوگا’لیکن اس عظیم خاتون کا عزم نہیں ٹوٹتا پھر اس ماں کے اعصاب توڑنے کے لیئے سامنے شوہر کے بعد پے در پے دو شیر جوان بیٹوں کی لاشیں رکھی جاتی ہیں
لیکن پیپلزپارٹی سے ہٹ کر اس ملک میں جو بھی شخص موجود ہے وہ گنگا جل سے دھلا ہوا ہے ، اس پر اعلٰی عدلیہ سے لے کر نیب ، فوج ‘پولیس اور مذہبی انتہا پسندوں تک سب کی مہربانی ہے چاہے وہ آئین شکنی کرے یا قتل عام ، انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر ناانصافی کرے یا جھوٹے احتساب کا نشانہ بنائے اسے کھلی چھٹی ہے ۔رہی آج کی بات تو آج کے دور ظلم اور بربریت اور کردار کشی کا سب سے بڑا نشانہ آصف زرداری ہے جس پر شاید ہی کوئی ایسا الزام ہو جو نہ لگا ہو قتل سے چوری اور ٹانگوں پر بم باندھنے سے لیکر کرپشن تک ، حالانکہ وقت اور تاریخ نے اس کو جھوٹ پراپیگنڈا ثابت کیا لیکن پھر بھی اس کے کوئی بخشش نہیں ۔
ہاں البتہ یہاں ایوب لیکر یحییٰ تک اور ضیا سے لیکر مشرف تک ، مولوی مشتاق سے لیکر نسیم حسن تک اور ملک قیوم سے لیکر افتخار چوہدری تک ، رانا مقبول سے لیکر سیف الرحمن تک اور شریف برداران سے لیکر چوہدری نثار تک یہ کچھ کر لیں آئین شکنی ہو یا پھر عدلیہ کا دو نمبر کردار ، انتقام ہو یا پھر کردار کشی ، ان سے کوئی پوچھو تاچھ نہیں کوئی جواب دہی نہیں ‘ ان کے لیئے ہے فقط رعایت ، شفقت اور معافی
اور پیپلزپارٹی والوں کے کڑا عذاب!
بقول وسعت اللہ کاش بھٹو بھی کوئی ریٹائرڈ جنرل ہوتے
13e15ae5c642354264e9cae6cb28e717

وه جو تاریک راهوں میں مارے گئے

وه جو تاریک راهوں میں مارے گئے
وه پھول جنھیں اپنی خوشبو دینی تھی مرجھا گئے
وه جو اپنے لهو کی سرخی سے بھٹو کی پارٹی کو جلا بخش گئے
6 اگست 1984 کو دجال کی کال کوٹڑی میں دو معصوم جئے بھٹو کا نعره مستانه لگاتے هوئے تخته دار پر چڑھ گئے
میرے پیارے عثمان غنی اور ادریس طوطی تمھارے گلے میں لٹکے پھانسی کے پھندے کی تکلیف مجھے آج بھی تکلیف دیتی هے نه جانے اتنی کم عمر میں اتنا بڑا حوصله کیسے پا لیا تم لوگوں نے ‘ نه گھر کی پرواه که نه دوستوں کی نه جوانی کا سوچا کیسے لوگ تھے تم ‘ یه بھی نه سوچا که تمھارے جانے تمھیں لوگ یاد بھی کریں گے که نھیں
آج تمھاری قبریں هماری نظروں سے اوجھل هیں لیکن اس وقت کا انتظار هے جب تمھارے ناموں پر ادارے بنائیں جائیں تمھاری داستانیں نسلوں کو سنائیں جائیں تمھارے کردار دهرائے جائیں
اے میرے پیارے 19 سال کے عثمان غنی ‘ اے ادریس طوطی تمھاری دوستی اور محبت پر قربان جاؤں جو تخته دار تک ایک رسی سے لٹکائے گئے
اے میرے پیارو آج تمھیں یاد کرکے دل پھر چھلنی هے
آج مجھے سمجھ نھیں آرهی تمھاری قربانی پر فخر کروں یا ماتم کروں
آج آنکھیں نم هیں
آج دل میں درد هے
سرخ سلام
سرخ سلام